شاعر: رانا
وہ جب بھی مسکرائے، بہار چھا گئی ہے
نفیسہ کے لبوں سے دعا نکل گئی ہے
نظارے سب ٹھہر کر اُسے ہی دیکھتے ہیں
کہ جیسے حسن کی انتہا نکل گئی ہے
نظر سے دل تلک، ایک سلسلہ چلا ہے
یہ عشق کی کوئی ابتدا نکل گئی ہے
ہر ایک بات میں اُس کا نام آ ہی جاتا ہے
میرے خیال پر وہ چھا گئی ہے، چھپ گئی ہے
خُدا بھی شاید اُس پہ ناز کرتا ہو
نفیسہ جیسی جب شکل بن گئی ہے
وہ ہاتھ تھام لے تو وقت رک سا جائے
یہ زندگی بھی کتنی خوب بن گئی ہے
"رَانا" کو اب کسی اور خواب کی حاجت نہیں
محبت اُس کی دل کی جاں بن گئی ہے
وہ جب بھی مسکرائے، بہار چھا گئی ہے